سراغ رساں کتوں کی حیثیت F20-21-01 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, October 9, 2020

سراغ رساں کتوں کی حیثیت F20-21-01

سراغ رساں کتے، کتوں کی حیثیت، سراغ رساں کتوں کی حیثیت
 

سراغ رساں کتوں کی حیثیت

O ہمارے پڑوس میں چوری ہوئی اور گھر کا قیمتی اثاثہ اور زیورات چوری ہو گئے۔ اہل خانہ اثر ورسوخ والے تھے‘ انہوں نے سراغ رساں کتے منگوائے‘ ان کتوں کی نشاندہی کی بنیاد پر ایک آدمی پر چوری کا پرچہ ہو گیا بلکہ پولیس اسے پکڑ کر لے گئی۔ پوچھنا یہ ہے کہ ان کتوں کی کیا حیثیت ہے؟!

یہ فتویٰ پڑھیں:              عذاب قبر

P حدود کا معاملہ بہت نازک ہے۔ اسلام نے اس سلسلہ میں بہت حزم واحتیاط کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے:

’’جہاں تک ہو سکے مسلمانوں سے حدود کو دور کرو‘ اگر بچاؤ کی کوئی صورت نظر آئے تو اس کا راستہ چھوڑ دو۔ حاکم وقت اگر درگذر کرنے میں خطا کرتا ہے تو یہ بہتر ہے کہ وہ سزاد ینے میں کسی غلطی کا ارتکاب کرے۔‘‘ (ترمذی‘ الحدود: ۱۴۳۴)

معتبر گواہی کی بناء پر حدود کا نفاذ ہوتا ہے۔ شک وشبہ اور احتمالات وقرائن کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس سلسلہ میں قاعدہ یہ ہے کہ شک وشبہ کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے‘ جب تک کسی جرم کا با ضابطہ ثبوت نہ ہو کسی ملزم کو مجرم نامزد کر کے سزا نہیں دی جا سکتی۔ امام بخاریa نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’گواہوں کے بغیر اگر کسی کی بے حیائی‘ بے شرمی اور بے غیرتی نمایاں ہو۔‘‘ (بخاری‘ الحدود‘ باب نمبر ۴۳)

اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ ثبوت کے بغیر کسی مجرم کو سزا دینا مناسب نہیں۔ اگرچہ اس کا جرم کتنا ہی نمایاں کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں عورت کا حوالہ دیا ہے جس کے اسلام لانے کے بعد بھی اس کی بدکرداری کا چرچا زبان زد خاص وعام تھا لیکن اس کی بدکرداری کے شواہد موجود نہیں تھے اور نہ اس کا اقرار ہی سامنے آیا تھا۔ البتہ قرائن موجود تھے۔ لیکن رسول اللہe نے قرائن کی بنیاد پر اس پر حد جاری نہیں کی بلکہ فرمایا: ’’اگر میں کسی عورت کو بلا ثبوت سنگسار کرتا تو اسے سنگسار کرتا۔‘‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا ابن عباسw فرماتے ہیں کہ یہ وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد علانیہ طور پر فسق وفجور کرتی تھی۔ (بخاری‘ الحدود: ۶۸۵۶)

یہ فتویٰ پڑھیں:              قرآنی استخارہ

سراغ رساں کتوں کا بھی یہی معاملہ ہے‘ ان کی گواہی کو شریعت تسلیم نہیں کرتی کیونکہ وہ یقینی نہیں ہوتی بلکہ اس میں احتمالات ہوتے ہیں‘ جب ان کی گواہی معتبر نہیں تو اس بنیاد پر اسلامی حدود کا نفاذ بھی نہیں ہو گا۔ بلکہ ان کھوجی کتوں کے باعث کئی بے گناہ جیلوں میں سزا کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ان کتوں کی غلط نشاندہی پر اکثر لوگ قرآن پاک اٹھانے اور حلف دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کئی ایک خاندانوں میں ان کی وجہ سے دشمنی اور عداوت جنم لے چکی ہے۔

کھوجی کتوں کا مالک سرچ کرنے والے کتے کو مخصوص کوڈ بتاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے فائنل کرو۔ پھر کتا کسی نزدیکی گھر میں جا کر بیٹھ جاتا ہے اور اس گھر پر چوری کی ریکوری ڈال دی جاتی ہے۔ ان کتوں کے ذریعے چوری تلاش کرنے کی پندرہ ہزار سے بیس ہزار فیس ہوتی ہے۔ طے شدہ مقام پر کتے کے بیٹھتے ہی بھاری فیس واجب الادا ہو جاتی ہے۔

کھوجی کتوں کی عقلی توجیہ اس طرح کی جاتی ہے کہ ان کی قوت شامہ یعنی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ چور کا جہاں ہاتھ لگا ہو یا جہاں پاؤں لگے ہوں وہاں کی مٹی اٹھا کر کتے کو سونگھا دی جاتی ہے۔ پھر مختلف چیزوں کو سونگھتا ہوا اس گھر جا کر بیٹھ جاتا ہے جہاں چور موجود ہوتا ہے۔ اس طرح کے قرائن وشواہد جتنے بھی قوی ہوں تا ہم خلاف واقعہ ہونے کا احتمال باقی رہتا ہے۔

یہ فتویٰ پڑھیں:              کسی دوسرے سے استخارہ کروانا

مثلاً ایک ویران جگہ پر چار دیواری کے اندر انسان کی خون سے لت پت لاش ملتی ہے‘ پھر وہاں ایک انسان بھی موجود ہے جس کے ہاتھ میں خون آلود چھری ہے‘ اب قرائن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مردہ لاش کا قاتل ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی قصاب گوشت بنانے کے لیے جانور ذبح کرے اور وہ خون آلود چھری کو لے کر اس چار دیواری میں پیشاب کرنے آگیا ہو جہاں خون میں لت پت لاش پڑی تھی۔ صورتحال اسے قاتل قرار دینے کے خلاف ہے۔ بہرحال چوری کے ثبوت کے لیے درج ذیل چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے:

\       چور خود چوری کا اعتراف کر لے۔

\       مسروقہ سامان اس کے گھر سے برآمد ہو جائے۔

\       دو عادل گواہ‘ گواہی دیں کہ ہم نے اسے چوری کرتے دیکھا ہے۔

کھوجی کتوں کی نشاندہی پر مندرجہ ذیل صورتوں میں ملزم کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے:

\       جس گھر میں کھوجی کتا بیٹھ جائے وہاں کا کوئی فرد چوری کا اقرار جرم کر لے۔

\       جس گھر کی کھوجی کتے نے نشاندہی کی ہے وہاں سے مسروقہ مال برآمد ہو جائے۔

ان دو صورتوں میں بھی اس لیے چور کا یقین نہیں کیا گیا کہ اس کی نشاندہی کھوجی کتے نے کی ہے بلکہ اس لیے کہ چور کا اقرار موجود ہے یا چوری کا سامان برآمد ہوا ہے۔

یہ فتویٰ پڑھیں:             بیوہ کے عقد ثانی کے بعد وراثت میں حصہ

اس مقام پر اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ جس گھر میں کھوجی کتا بیٹھ گیا ہے وہ اگرچہ چوری ڈاکے میں معروف ہی کیوں نہ ہو اسے اس بناء پر مجرم قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ کیونکہ چوری چکاری میں مشہور ہونے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ موجودہ چوری بھی اس نے کی ہے۔ بہرحال اس میں بہت حزم واحتیاط اور قانونی تقاضے پورے کرنے کی ضرورت ہے۔


No comments:

Post a Comment

Pages