اولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت F20-24-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, October 30, 2020

اولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت F20-24-02

ھفت روزہ اھل حدیث, ہفت روزہ اہل حدیث, اھلحدیث, اہلحدیث, اولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت,
 

اولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت

O اگر کسی شخص کے ہاں اولاد نہ ہو تو اس کی وفات کے بعد اس کا ترکہ کیسے ملتا ہے؟ قرآن وحدیث میں اس کے متعلق کیا وضاحت ہے؟ تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                   باپ کی خرید کردہ زمین میں وراثت

P مرنے کے بعد میت کے ترکے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں‘ وہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ‘ ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔‘‘ (النساء: ۷)

وہ ورثاء‘ جن کے حصے قرآن وحدیث میں متعین کر دیئے گئے ہیں وہ کل بارہ ہیں‘ جن کی تفصیل یہ ہے: 1 خاوند 2 باپ 3 دادا 4 مادری بھائی‘ یہ چار مردوں سے ہیں۔ 5 بیوی 6 ماں 7 دادی ونانی 8 بیٹی 9 پوتی / پڑپوتی 0 حقیقی بہن ! مادری بہن @ پدری بہن۔ … یہ آٹھ عورتوں میں سے ہیں۔

یاد رہے کہ والدین‘ زوجین اور وَلَدَین کسی صورت میں محروم نہیں ہوتے۔ ہاں اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو الگ بات ہے دور حاضر میں دو رکاوٹیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ کوئی دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل تو جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے اور دوسری یہ ہے کہ کوئی رشتہ دار اپنا دین بدل لے۔ مثلاً قادیانی یا ہندو‘ سکھ‘ یہودی‘ عیسائی ہو جائے تو اس صورت میں بھی وہ جائیداد سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر مذکورہ رشتے داروں میں سے کوئی نہ ہو تو دوسرے درجے میں عصبات کو میراث ملتی ہے‘ ان کے بھی تین درجے ہیں۔ اگر یہ بھی نہ ہوں تو ’’ذوی الارحام‘‘ میت کی جائیداد کے حقدار ہوتے ہیں۔ اس سے مراد میت کے وہ قریبی رشتہ دار ہیں جن کا حصہ متعین نہیں اور وہ عصبہ بھی نہیں۔ اگر مرنے والے شخص کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا ترکہ اسلامی حکومت کے بیت المال میں جمع ہو جائے گا۔ اگر شرعی بیت المال کا نظام نہ ہو یا اگر ہو تو شرعی بنیادوں پر قائم نہ ہو جمہور اہل علم کے نزدیک میت کا ترکہ ان رشتہ داروں کو دیا جائے گا جو شرعی وارث نہیں ہیں۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                   بیوہ کے عقد ثانی کے بعد وراثت

صورت مسئولہ میں اگر مرنے والے کی نرینہ یا مادہ اولاد نہیں تو درج بالا تفصیل کے مطابق اس کا ترکہ تقسیم کر لیا جائے۔ اس سلسلہ میں کسی کی حق تلفی یا طرفداری نہ کی جائے کیونکہ یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے لہٰذا اس میں معمولی سی اونچ نیچ سے آخرت میں معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔ وہاں تو نیکیوں اور برائیوں کے ذریعے حق تلفی کی جائے گی۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages