ماں کی جائیداد سے بیٹے کا حصہ
O میری
والدہ نے اپنے سسر کے مکان میں بارہ ہزار روپے کا حصہ ڈالا اور کہا کہ یہ میرے بیٹے
کے کام آئے گا جبکہ مکان چوبیس ہزار کی مالیت کا تھا۔ اب میری والدہ فوت ہو گئی ہیں‘
کیا میں اس مکان سے اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ کر سکتا ہوں؟!
یہ فتویٰ پڑھیں: اولاد نہ ہونے کی صورت میں وراثت؟!
P دین
اسلام معاملات وعبادات پر مشتمل ہے‘ معاملات میں اصل اباحت ہے یعنی ہر قسم کا معاملہ
جائز ہے۔ الا یہ کہ اس کے متعلق ممانعت آجائے جبکہ عبادات میں اصل منع ہے یعنی ہر
قسم کی عبادت منع ہے الا یہ کہ اس کی مشروعیت کا قرآن وحدیث سے ثبوت ہو۔ اس بنیادی
تمہید کے بعد مکانات کی حصے داری اور خرید وفروخت کا تعلق معاملات سے ہے۔ اس بناء پر
کسی بھی مرد یا عورت کا کسی بھی مکان میں حصہ رکھنا یا اسے خریدنا‘ فروخت کرنا جائز
ہے۔
صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ نے اپنے سسر کے مکان میں بارہ ہزار روپے کا حصہ
ڈالا جبکہ مکان کی مالیت چوبیس ہزار روپیہ تھی۔ دوسرے الفاظ میں وہ نصف مکان کی مالکہ
ہے اب وہ فوت ہو چکی ہے اور اس کا وارث اس کا اکلوتا بیٹا ہے۔ اب وہی بیٹا اس کے تمام
ترکے کا وارث ہے کیونکہ حدیث میں ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دینے کے
بعد جو باقی بچے وہ اس کے مذکر قریبی رشتہ دار کا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الفرائض: ۶۷۳۲)
اب مرحومہ کی جائیداد سے مقررہ حصہ لینے والا کوئی نہیں‘ اس صورت میں تمام جائیداد
اس کے مذکر قریبی رشتہ دار کی ہے جو اس کا بیٹا ہے۔ جن رشتے داروں کو طے شدہ حصہ نہیں
ملتا انہیں عصبہ کہا جاتا ہے۔ اس کی تعریف حسب ذیل ہے: ’’میت کے وہ قریبی رشتہ دار
جن کے حصے متعین نہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہوا حصہ لیتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی
میں وہ میت کے تمام ترکے کے وارث بنتے ہیں۔‘‘
یہ فتویٰ پڑھیں: باپ کی خرید کردہ زمین میں وراثت
درج بالا تفصیل کے پیش نظر سائل اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ کر سکتا ہے جو مرحومہ
نے اپنے سسر کے مکان میں ڈالا تھا۔ دوسرے رشتہ داروں کو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہیے
کیونکہ یہ معاملہ حقوق العباد کا ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے۔ بہتر ہے کہ دنیا میں ہی
اس کی ادائیگی ہو جائے۔ بصورت دیگر قیامت کے دن نیکیاں دے کر اس کی تلافی ہو گی۔ واللہ
اعلم!
No comments:
Post a Comment