نئے نوٹوں کی زیادہ قیمت وصول کرنا F20-25-02 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, November 6, 2020

نئے نوٹوں کی زیادہ قیمت وصول کرنا F20-25-02

ھفت روزہ اھل حدیث, احکام ومسائل, نئے نوٹوں کی زیادہ قیمت وصول کرنا,
 

نئے نوٹوں کی زیادہ قیمت وصول کرنا

O اسٹیٹ بنک کے ملازمین رائج الوقت کرنسی کے نئے نوٹ تبدیل کرنے کے زائد پیسے وصول کرتے ہیں۔ کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے متعلق ہمیں تفصیل سے آگاہ کریں۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                     سود پر قرض لینا؟!

P ایک ہی ملک میں رائج الوقت کرنسی نوٹوں کا تبادلہ مساوات اور برابری کے ساتھ کرنا جائز ہے۔ کیونکہ نئے اور پرانے نوٹوں کی حیثیت ومالیت ایک ہی ہوتی ہے اس کے برعکس اگر نئے نوٹوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پرانے نوٹوں سے ان کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ کیا جائے تو ایسا کرنا ناجائز بلکہ صریح سود ہے۔ مثلاً ۱۰۰ روپے کے نئے نوٹوں کا بنڈل ۱۱۰ روپے پرانے نوٹوں کے عوض لینا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ ایک ہی جنس ہے‘ ایک جنس کا کمی بیشی سے تبادلہ کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک ہی قسم کی کھجوروں کا دوسری قسم کی کھجوروں کے ساتھ اضافہ کے ساتھ تبادلہ کرنا ممنوع ہے۔ رسول اللہe نے اسے صریح سود کہا ہے۔ (بخاری‘ البیوع: ۲۲۰۲)

چنانچہ جہاں مقدار کا اعتبار ہوتا ہے وہاں دیگر اوصاف (نئے اور پرانے ہونے) کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا ایک روپیہ کا سکہ یا نوٹ خواہ وہ کتنا ہی نیا اور چمکدار ہو‘ اس کی قیمت بھی ایک روپیہ رہے گی۔ اسی طرح وہ سکہ یا نوٹ خواہ کتنا ہی پرانا اور میلا کچیلا ہو جائے اس کی قیمت ایک روپیہ سے کم نہیں ہو گی حالانکہ دونوں کے اوصاف میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بازار میں بھی یہ فرق کالعدم ہو چکا ہے۔ اس بناء پر اگر ایک روپیہ کو دو روپیہ کے عوض فروخت کیا جائے تو شرعا ناجائز ہو گا۔ پھر یہ برابری اور مساوات کرنسی نوٹوں کی مقدار اور گنتی کے لحاظ سے نہیں ہو گی۔ بلکہ مساوات میں ان نوٹوں کی ظاہری قیمت کا اعتبار کیا جائے گا جو ان پر لکھی ہوتی ہے لہٰذا سو روپے کے ایک نوٹ کے تبادلہ میں پچاس روپے کے دو نوٹ لیے جا سکتے ہیں کیونکہ ظاہری قیمت کے لحاظ سے پچاس روپے کے دو نوٹوں کی قیمت سو روپے کے ایک نوٹ کے برابر ہے۔ ہاں اگر نوٹ بذات خود بحیثیت مادہ مقصود ہوں تو ان کی ظاہری قیمت مقصود نہیں ہو گی۔ جیسا کہ بعض لوگ مختلف ممالک کے سکے اور کرنسی نوٹ تاریخی یادگار کے طور پر جمع کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں آج کل ایک روپیہ‘ دو روپیہ اور پانچ روپیہ کا نوٹ ختم ہو چکا ہے اس طرح سوراخ والا تانبے کا پیسہ بھی ختم ہو چکا ہے‘ اگر کوئی اسے نشانی کے طور پر خریدنا چاہے اور اس کا مقصد تبادلہ یا بیع یا ان کے ذریعے کوئی منافع حاصل کرنا نہ ہو تو بظاہر اس قسم کے تبادلے میں کمی بیشی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ یعنی تانبے کی دھات کا سوراخ والا ایک پیسہ ایک روپیہ میں خریدا جا سکتا ہے لیکن سد باب کے طور پر اس سے بھی گریز کیا جائے تا کہ ایسا کرنا کس قسم کے چور دروازے کا پیش خیمہ نہ ہو۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                     کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھنا؟!

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نئے نوٹوں کے ۵۰۰ والا بنڈل ۵۵۰ روپے میں فروخت کرنا یا اسے خریدنا شرعا حرام اور ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں مساوی جنس کا تبادلہ مساوی جنس سے اضافہ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ احادیث میں اسے سود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages