بیوہ کے لیے عقد ثانی یا بچوں کی پرورش F20-25-03 - احکام ومسائل

تازہ ترین

Friday, November 6, 2020

بیوہ کے لیے عقد ثانی یا بچوں کی پرورش F20-25-03

ھفت روزہ اھل حدیث, احکام ومسائل, بیوہ کے لیے عقد ثانی, بچوں کی پرورش, بیوہ کے لیے عقد ثانی یا بچوں کی پرورش,
 

بیوہ کے لیے عقد ثانی یا بچوں کی پرورش

O ایک عورت کا خاوند فوت ہو گیا ہے‘ اس کی دو بچیاں ہیں‘ اب بیوہ کیلئے کیا افضل ہے؟ کیا وہ عقد ثانی کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار کرے یا بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے خود کو وقف کر دے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔

یہ فتویٰ پڑھیں:                     بیوہ کے لیے عقد ثانی کے بعد وراثت

P آج کل فتنوں کا دور ہے‘ اگر بیوہ کو کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو اسے چاہیے کہ عقد ثانی کر کے اپنی عزت وناموس کو محفوظ کرے۔ جس قدر بھی فتنوں میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہو گا اسی قدر عقد ثانی کرنے کی تاکید بھی زیادہ ہو گی۔ اگر بیوہ اپنے اندر ہمت پاتی ہے کہ وہ صبر واستقامت کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور عفت وپاکدامنی کے ساتھ زندگی گذار سکتی ہے اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کی خاطر عقد ثانی نہیں کرتی تو اس کی بہت فضیلت ہے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہr سے مروی ایک حدیث ہے وہ فرماتی ہیں: ’’میرے پاس ایک عورت سوال کرتی ہوئی آئی‘ اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں‘ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا‘ میں نے وہی کھجور اسے دے دی۔ اس نے اس کھجور کو اپنی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور خود اس نے کچھ نہ کھایا پھر وہ چلی گئی۔ جب رسول اللہe گھر تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپe نے فرمایا: ’’جو شخص ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوا اس کے لیے یہ بچیاں آگ سے پردہ بن جائیں گی۔‘‘ (بخاری‘ الزکوٰۃ: ۱۴۱۸)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھوٹی بچیوں پر خرچ کرنا‘ ان کی دیکھ بھال اور خبر گیری کرنا ایک ایسا عمل ہے جو جہنم کی آگ سے نجات کا باعث ہے۔

ایک دوسری حدیث جسے حضرت عوف بن مالک اشجعیt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’میں اور کالے رخساروں والی عورت قیامت کے دن اس طرح (قریب قریب) ہوں گے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب: ۵۱۴۹)

اس حدیث کے ایک راوی جناب یزید بن زریع نے الفاظ بیان کرنے کے بعد انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں‘ اسی طرح قیامت کے دن رسول اللہe اور وہ بیوہ عورت قریب قریب ہوں گے‘ پھر سیاہ رخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کے مر جانے کی وجہ سے بیوہ ہو گئی اور وہ خوبصورت اور صاحب عزت وجاہ بھی تھی لیکن وہ محض اپنے بچوں کی پرورش‘ تعلیم وتربیت اور ان کی دیکھ بھال کی خاطر عقد ثانی سے باز رہے تا آنکہ وہ بچے جدا ہو جائیں‘ یعنی بڑے اور بالغ ہونے کے بعد اپنی ماں کے محتاج نہ رہیں یا موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے۔‘‘ (ابوداؤد‘ حدیث مذکور نمبر: ۵۱۴۹)

یہ فتویٰ پڑھیں:                     عورت عدتِ وفات کہاں گذارے؟!

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوہ اگر بچوں کی نگہداشت اور ان کی تعلیم وتربیت کی وجہ سے دوسرا نکاح نہیں کرتی تو اس کے لیے بہت فضیلت والی بات ہے مگر یہ اس وقت ہے جب وہ صبر واستقامت کے ساتھ زندگی گذار سکتی ہے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

Pages